عشق ہےساحب
اس نے اس خاندان کی عزت مٹی میں ملا دی تھی اور اس نے دعا کی تھی کہ اب وہ کبھی اس کے سامنے نہ آئے ورنہ وہ کچھ کر بیٹھے گا، حویلی میں یہ بات پھیل گئی اور سب ہی افسردہ سے بیٹھے تھے۔
" دخان میکسیکو سے تمہارے مہمان آئے ہیں۔ اس کے پھپھو زاد سیف نے برآمدے میں داخل ہو کے کہا تو سب نے ہی نظریں اٹھا کے اس کے پیچھے آنے والے لڑکے اور لڑکی کو دیکھا اور دخان بے یقینی کے عالم میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کی طرف بڑھا اور گرم جوشی سے لڑکے کو گلے لگایا تو مائده اس کے کان میں بولی۔
" یہ میرا کزن اور بہترین دوست عبدالمہد ہے۔" دخان نے ان کا سب سے تعارف کروایا۔
" یہ میرا دوست ہے عبدالمہد ہے اور یہ اس کی کزن مائده ہیں۔ عائشہ اورحامد نے دونوں کو پیار دیا۔
" کسی کا برتھ ڈے ہے آج؟“ اس نے سجے ہوئے گھر اور اتنے لوگوں کی موجودگی کو دیکھ کے اندازہ لگایا اور ریاح سے پوچھا تو دخان اس کے اردو بولنے پر حیران ہوا تھا۔
" تمہارے لیے یہ اردو کیا کسی بھی پہاڑ کو سر کرسکتی ہے۔" عبر المہد نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ ریاح کی بجائے عائشہ نے اسے مختصرسا بتا دیا کہ لڑکی نے شادی سے انکار کردیا ہے اس لیے اب دخان کی شادی نہیں ہورہی تو مائده کے چہرے پر دھنک سے رنگ کھلے تھے۔
" کیا آپ دخان کی شادی میری کزن مائدہ سے کریں گے؟" عبدالمہد نے عائشہ اور حامد کی طرف دیکھ کے پوچھا اور پھر ساری بات اسلام قبول کرنے سے پاکستان شفٹ ہونے تک بتادی تو سب نے انہیں اسلام قبول کرنے کی مبارک دی اور پھر حامد نے ان سے پوچھا اور اس نے فرماں بردار بیٹوں کی طرح کہا۔
" بابا جان ! جیسے آپ سب کی مرضی " اور پھر سب کی رضامندی سے پرپوزل قبول کرلیا گیا۔
وہ صبح سے مائدہ سے بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھا لیکن موقع ہی نہیں مل رہا تھا اور وہ بات کرنے کے لیے بے چین ہو رہا تھا وہ اس کی ہونے والی دلہن تھی اس سے نکاح تک پردہ کروا دیا گیا تھا سب لوگ اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے اور عائشہ کچھ خواتین کے ساتھ بازار گئی تھیں مائدہ کے شادی کے کپڑے اور زیور خریدنے کے لیے۔ اس کی نظر ریاح پر پڑی تو اس نے اسے جا لیا۔
" میری بلی میرا ایک کام کرو گی ؟ اپنی بھابی سے ملوا دو دراصل میں ایک دفعہ اسے دیکھنا چاہتا ہوں یہ نہ ہو کے شادی کے بعد پچھتانا پڑے۔" اس نے چہرے پر معصومیت طاری کرتے ہوۓ کہا اور حویلی کے پچھلی طرف جا کے جامن کے درخت سے ٹیک لگا کے اس کا انتظار کرنے لگا۔
" دخان ۔" اپنا نام پکارے جانے پر اس نے مسکراتے ہوۓ اس کی طرف دیکھا تھا۔
" جی جان دخان ۔" اس نے آنکھوں میں بے شمار محبت لاتے ہوۓ کہا تو وہ بلش ہو گئی تھی وہ اس کے چہرے پہ بکھرے دھنک رنگ دیکھنے لگا اور مائدہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کنفیوژ کیوں ہو رہی ہے اور وہ اسے کنفیوژ ہوتے دیکھ کے ہنسنے لگا اور اس کی پیلی اور سبز رنگ کی چوڑیوں سے سجی کلائی تھام کر بولا ۔ " سب کچھ تو لے لیا تم نے اب ان قاتل اداؤں سے جان لو گی کیا؟" اس نے نفی میں گردن ہلائی تھی اور کھنکتے لہجے میں بولی۔